خیال و جمال

امریکہ کی قابل قدر ادیبہ
غوثیہ سلطانہ نوری پر ایک نظم
خیال و جمال
از غلام ثاقب بیڑ
اخلاق کا پیکر ہیں اردو کی ہیں شیدائی
تتلی کا تبسم ہیں پھولوں کی وہ رعنائی
تہذیب و تمدن کی راہ جس نے ہے دکھلائی
امریکہ کی ہر شام بھی اردو سے ہے مہکائی
وہ غوثیہ سلطانہ ہیں اور نوری ان کا نام
تازندگی کیا ہے یوں اردو کا جس نے کام
نعت رسول پاک سے ہوتی ہے صبح و شام
اردو کی نئی نسل کی رہبر ہیں خوش مقام
ضبط و وفا کی اعلی تریں وہ مثال ہیں
خوش انداز و خوش ادا ہیں وہ خوش خصال ہیں
نظموں سی خوش لحن اور اردو جمال ہیں
سرمد کی ہوٗ خسرو کا حسیں اک خیال ہیں
انسانیت کا وصف سخاوت رحم وفا
نوری نئی نسل کو کرتی ہیں ضو عطا
ان کے یہاں ملے گی دردِ دل کی ہر دوا
ہاں غوثیہ آپی کی مثالی ہر اک ادا
اللہ انہیں رکھے زمانے میں شاد کام
ان کی حیات و علم کو ملتا رہے دوام
آپ کی عظمت کے قائل ہیں خاص و عام
ثاقب کی ہے دعا اور نوری کو یہ سلام